EN हिंदी
خاک یا کہکشاں سے اٹھتا ہے | شیح شیری
KHak ya kahkashan se uThta hai

غزل

خاک یا کہکشاں سے اٹھتا ہے

سید امین اشرف

;

خاک یا کہکشاں سے اٹھتا ہے
درد آخر کہاں سے اٹھتا ہے

ہے عجب جائے امن قریۂ دل
حشر سارا جہاں سے اٹھتا ہے

دیکھ اے آہ ساکنان‌ زمیں
اک غبار آسماں سے اٹھتا ہے

پہلے یہ خار و خس جلاتا تھا
شعلہ اب گلستاں سے اٹھتا ہے

مسئلہ خاطر پریشاں کا
خواہش رائیگاں سے اٹھتا ہے

اک خلا ہے جو پر نہیں ہوتا
جب کوئی درمیاں سے اٹھتا ہے

شاہکار سخن ہے مصرع میرؔ
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے