خاک اڑتی ہے خریدار کہاں کھو گئے ہیں
جن سے تھی رونق بازار کہاں کھو گئے ہیں
سب کی پیشانیاں سجدوں سے منور ہیں یہاں
اے خدا تیرے گنہ گار کہاں کھو گئے ہیں
سرنگوں بیٹھے ہیں سب ظل الٰہی کے حضور
کیا ہوئے صاحب دستار کہاں کھو گئے ہیں
جن کے دامن میں دعاؤں کے خزانے تھے بہت
وہ سخاوت کے علم دار کہاں کھو گئے ہیں
ایسا احساس زیاں تو کبھی گزرا ہی نہ تھا
دوست کیا ہوئے اغیار کہاں کھو گئے ہیں
ڈھونڈھتی پھرتی ہے پاگل کی طرح شام اودھ
لکھنؤ تیرے طرحدار کہاں کھو گئے ہیں
خانۂ جاں میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے تمام
وہ فروزاں در و دیوار کہاں کھو گئے ہیں
منزلیں جن کی قدم بوسی پہ نازاں تھیں بہت
وہ جری قافلہ سالار کہاں کھو گئے ہیں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں درویش و قلندر اخترؔ
سب کے سب آئینہ کردار کہاں کھو گئے ہیں
غزل
خاک اڑتی ہے خریدار کہاں کھو گئے ہیں
سلطان اختر