EN हिंदी
خاک تھے کہکشاں کے تھے ہی نہیں | شیح شیری
KHak the kahkashan ke the hi nahin

غزل

خاک تھے کہکشاں کے تھے ہی نہیں

ضیا ضمیر

;

خاک تھے کہکشاں کے تھے ہی نہیں
ہم کسی آسماں کے تھے ہی نہیں

اس نے ایسا کیا نظر انداز
جیسے ہم داستاں کے تھے ہی نہیں

تم نے جو بھی سوال ہم سے کئے
وہ سوال امتحاں کے تھے ہی نہیں

چھوڑ کر جو چلے گئے اس کو
ہاں وہ ہندوستاں کے تھے ہی نہیں

اتنی جلدی جو بھر گئے ہیں زخم
جسم کے تھے یہ جاں کے تھے ہی نہیں

شعر دل میں اتر نہیں پائے
کیونکہ دل کی زباں کے تھے ہی نہیں

مسئلہ تھا تو بس انا کا تھا
فاصلے درمیاں کے تھے ہی نہیں