خاک تھے غنچہ لب اور خواب تھی لہجے کی کھنک
جھڑ گیا قبر میں جب حسن سراپا کا نمک
وہ جن آنکھوں میں تھی برسات کے منظر کی جھلک
اب ان آنکھوں میں سفیدی نہ سیاہی نہ دھنک
وہ صراحی سی جو گردن کی ہے ٹوٹی پھوٹی
وہ کمر ہی نہ رہی جس میں کہ پیدا ہو لچک
قبر کی خاک ہی غازہ ہے وہی زینت ہے
واں نہ افشاں نہ ہی سرخی نہ ہی جھومر نہ تلک

غزل
خاک تھے غنچہ لب اور خواب تھی لہجے کی کھنک
خالد اقبال تائب