EN हिंदी
خاک تھے غنچہ لب اور خواب تھی لہجے کی کھنک | شیح شیری
KHak the ghuncha-lab aur KHwab thi lahje ki khanak

غزل

خاک تھے غنچہ لب اور خواب تھی لہجے کی کھنک

خالد اقبال تائب

;

خاک تھے غنچہ لب اور خواب تھی لہجے کی کھنک
جھڑ گیا قبر میں جب حسن سراپا کا نمک

وہ جن آنکھوں میں تھی برسات کے منظر کی جھلک
اب ان آنکھوں میں سفیدی نہ سیاہی نہ دھنک

وہ صراحی سی جو گردن کی ہے ٹوٹی پھوٹی
وہ کمر ہی نہ رہی جس میں کہ پیدا ہو لچک

قبر کی خاک ہی غازہ ہے وہی زینت ہے
واں نہ افشاں نہ ہی سرخی نہ ہی جھومر نہ تلک