EN हिंदी
خاک سے اٹھنا خاک میں سونا خاک کو بندہ بھول گیا | شیح شیری
KHak se uThna KHak mein sona KHak ko banda bhul gaya

غزل

خاک سے اٹھنا خاک میں سونا خاک کو بندہ بھول گیا

شائستہ مفتی

;

خاک سے اٹھنا خاک میں سونا خاک کو بندہ بھول گیا
دنیا کے دستور نرالے آپ سے رشتہ بھول گیا

جنگل جنگل جوگ میں تیرے پھرتے ہیں اک روگ لیے
ترے ملن کی آس جگی ہے دشت کا رستہ بھول گیا

ایک محبت راس ہے دل کو ایک وفا انمول صنم
بھیس فقیروں والا بھر کے ذات کا صحرا بھول گیا

خواب میں جب سے دیکھا اس کو چین نہیں ہے آنکھوں میں
ساری رات مسلسل کاٹی خواب کا رستہ بھول گیا

شام ڈھلے اک پہلا تارا ہم سے ملنے آیا تھا
دور بدیس میں رہنے والا اپنا پرایا بھول گیا

ہر دھڑکن سے پیار کا امرت ہر اک لفظ میں اترا تھا
ساری عمر جو لکھا دل نے وہی وظیفہ بھول گیا

مالا جپتے جپتے گزری عمر کسی سنیاسی کی
منزل پاس جو آ پہنچی تو عشق صحیفہ بھول گیا