خاک میں مجھ کو مری جان ملا رکھا ہے
کیا میں آنسو ہوں جو نظروں سے گرا رکھا ہے
اک تمہیں کو نہیں بے چین بنا رکھا ہے
عرش بھی تو مرے نالوں سے ہلا رکھا ہے
سوزش ہجر نے اک سیم بدن کے مجھ کو
ایسا پھونکا ہے کہ اکسیر بنا رکھا ہے
اک پری وش کی عنایت نے زمانے میں مجھے
وقت کا اپنے سلیمان بنا رکھا ہے
اپنے سایہ سے بھڑک کر کہا اس شوخ نے یوں
مرے اللہ کسے ساتھ لگا رکھا ہے
دل تو دیتا ہوں مری جان مگر غم ہے یہی
میرے ارمانوں نے گھر اس میں بنا رکھا ہے
دل کے طالب جو ہوا کرتے ہیں عاشق سے حسیں
تو انہیں حسن نے یہ کام سکھا رکھا ہے
سامنے آتے ہوئے کس لیے شرماتے ہو
جب مری آنکھ میں گھر تم نے بنا رکھا ہے
مفت دل کو مرے اے برق وش الفت ہے تری
مضطرب صورت سیماب بنا رکھا ہے
تیری دز دیدہ نگاہیں یہ پتہ دیتی ہیں
کہ انہیں چوروں نے دل میرا چرا رکھا ہے
مال چوری کا نہیں جب تو بتا دو مجھ کو
تم نے کس چیز کو مٹھی میں دبا رکھا ہے
تم نے کیوں دل میں جگہ دی ہے بتوں کو صابرؔ
تم نے کیوں کعبہ کو بت خانہ بنا رکھا ہے
غزل
خاک میں مجھ کو مری جان ملا رکھا ہے
فضل حسین صابر