خاک میں ملتی ہیں کیسے بستیاں معلوم ہو
آنے والوں کو ہماری داستاں معلوم ہو
جو ادھر کا اب نہیں ہے وہ کدھر کا ہو گیا
جو یہاں معدوم ہو جائے کہاں معلوم ہو
مرحلہ تسخیر کرنے کا اسے آسان ہے
گر تجھے اپنا بدن سارا جہاں معلوم ہو
جو الگ ہو کر چلے سب گھومتے ہیں اس کے گرد
یوں جدا ہو کر گزر کہ درمیاں معلوم ہو
کتنی مجبوری ہے لا محدود اور محدود کی
بیکراں جب ہو سکیں تب بیکراں معلوم ہو
ایک دم ہو روشنی تو کیا نظر آئے ملالؔ
کیا سمجھ پاؤں جو سب کچھ ناگہاں معلوم ہو
غزل
خاک میں ملتی ہیں کیسے بستیاں معلوم ہو
صغیر ملال