خاک کرتی ہے برنگ چرخ نیلی فام رقص
ہر دو عالم کو ترا رکھتا ہے بے آرام رقص
دیکھیے پیری کا حال اور دیکھیے ریش سفید
شیخ صاحب نا مناسب ہے یہ بے ہنگام رقص
ابلق چشم بتاں کی شوخیاں چکرا گئیں
آسماں پر مہر و مہ کرتے ہیں صبح و شام رقص
ہو حقیقی یا مجازی عشق کی حالت نہ پوچھ
خانقہ میں مے ہے اور مے خانہ میں بدنام رقص
صومعہ میں وجہ صد تحسیں ہوا صوفی کا حال
مے کدہ میں آن کر کیوں ہو گیا بدنام رقص
نرگس مخمور جاناں ڈال دیتی گر نگاہ
مردم چشم بتاں کی طرح کرتا جام رقص
عاشقاں ابروئے بت کی ہے طاعت اضطراب
تھی نماز اہل حرم جب تک نہ تھا اسلام رقص
گرد پھرتا ہوں جو اس بر کے تو واعظ کیا ہوا
طوف میں کرتا ہے تو بھی باندھ کر احرام رقص
بحر میں گرداب ہے اور دشت میں ہے گرد باد
خشک و تر میں ہے تری شوخی سے اے گلفام رقص
شوخ نے برہم نظام محفل امکاں کیا
خاک نے چھیڑا ہے گردوں نے لیا ہے تھام رقص
پائمال غم پسے جاتے ہیں سرمے کی طرح
لے اڑی کس کے قدم سے گردش ایام رقص
تیری شوخی سے تری رفتار سے اے رشک باغ
چوکڑی بھولا ہرن طاؤس گل اندام رقص
عیش جاوید ان کو حاصل ہے جو ہیں تیری طرف
طائر قبلہ نما کرتا ہے صبح و شام رقص
غزل
خاک کرتی ہے برنگ چرخ نیلی فام رقص
بیان میرٹھی