خاک کر ڈالیں ابھی چاہیں تو مے خانہ کو ہم
ایک ساغر کو بھرو تم ایک پیمانے کو ہم
مجھ سے ہم آغوش ہو کر یوں کہا اور سچ کہا
ہوشیار اس طرح کر دیتے ہیں دیوانے کو ہم
نزع میں آئے ہیں صد افسوس جیتے جی نہ آئے
وہ ہیں آنے کو تو اب تیار ہیں جانے کو ہم
بے نتیجہ ان پہ مرنا یاد آتا ہے ہمیں
شمع پر جب دیکھتے ہیں مرتے پروانے کو ہم
کوہ کن اور قیس کی قبروں سے آتی ہے صدا
کیا مکمل کر گئے الفت کے افسانے کو ہم
ایک پتا بھی نہیں ہلتا بجز حکم خدا
کس طرح آباد کر لیں اپنے ویرانے کو ہم
ایک دن یہ ہے کہ ہیں اک شمع رو پر خود نثار
ایک دن وہ تھا برا کہتے تھے پروانے کو ہم
ابرووں نے سچ کہا اس کے اشارہ کی ہے دیر
دیکھتے بالکل نہیں پھر اپنے بیگانے کو ہم
جان جائے یا رہے اس کو سنائیں گے ضرور
قیس کے پردہ میں پرویںؔ اپنے افسانے کو ہم
غزل
خاک کر ڈالیں ابھی چاہیں تو مے خانہ کو ہم
پروین ام مشتاق