خاک دل کہکشاں سے ملتی ہے
یہ زمیں آسماں سے ملتی ہے
ہاتھ آتی نہیں کبھی دنیا
اور کبھی ہر دکاں سے ملتی ہے
ہم کو اکثر گناہ کی توفیق
حجت قدسیاں سے ملتی ہے
دل کو ایمان جاننے والے
دولت دل کہاں سے ملتی ہے
ماورائے سخن ہے جو توقیر
اک کڑے امتحاں سے ملتی ہے
انتہا یہ کہ میری حد سفر
منزل گمرہاں سے ملتی ہے
ہر ستارہ لہولہان مرا
یہ جبیں آسماں سے ملتی ہے
کنج گل کی خبر دریچے کو
اب تو باد خزاں سے ملتی ہے
سہل شاہینؔ یہ ہنر تو نہیں
شاعری نقد جاں سے ملتی ہے
غزل
خاک دل کہکشاں سے ملتی ہے
شاہین غازی پوری