خاک آئینہ دکھاتی ہے کہ پہچان میں آ
عکس نایاب مرے دیدۂ حیران میں آ
ہے شرارہ ہوس آمادۂ پرواز بہت
یم ظلمات بلاتا ہے کہ طوفان میں آ
جگمگاتا ہوا خنجر مرے سینے میں اتار
روشنی لے کے کبھی خانۂ ویران میں آ
اس طرح چھپ کہ کوئی ڈھونڈ نکالے تجھ کو
آسمانوں سے اتر کر حد امکان میں آ
بیٹھ جا اپنے کٹے سر کو لیے ہاتھوں میں
تھک گیا میں بھی یہاں گنج شہیدان میں آ
رمنہ خالی رم آہوئے معانی سے ہوا
چھپ کے بیٹھا ہی تھا میں زیبؔ نیستان میں آ
غزل
خاک آئینہ دکھاتی ہے کہ پہچان میں آ
زیب غوری