کون یہ روشنی کو سمجھائے
ساتھ دیتے نہیں کبھی سائے
راز کھل جائے پھر وہ راز کہاں
بات ہی کیا جو لب پہ آ جائے
گھر ہمیشہ ہی بے چراغ رہا
داغ سینے کے لو نہ دے پائے
چاندنی کھل رہی ہے ان کی طرح
گزرے لمحات کتنے یاد آئے
ترے کوچے میں صبح دم اکثر
دیکھ کر پھول ہم کو شرمائے
دھوپ میں میرے ساتھ چلتے ہیں
ان کی پلکوں کے دل نشیں سائے
ہم سکوں کی تلاش میں آخر
تیرے کوچے میں پھر چلے آئے
روز جاتا ہوں میکدے کی طرف
کاش یہ دل کبھی بہل جائے
اب خرابات میں وہ رند کہاں
شب گئے صبح کی خبر لائے
بوئے مے سے مہک رہا ہے دماغ
بوئے گل کی ہوس نکل جائے
مے کدہ وقت ہی پہ کھلتا ہے
وجدؔ بے وقت کیوں چلے آئے
غزل
کون یہ روشنی کو سمجھائے
وجد چغتائی