EN हिंदी
کون یاد آیا یہ مہکاریں کہاں سے آ گئیں | شیح شیری
kaun yaad aaya ye mahkaren kahan se aa gain

غزل

کون یاد آیا یہ مہکاریں کہاں سے آ گئیں

ظفر گورکھپوری

;

کون یاد آیا یہ مہکاریں کہاں سے آ گئیں
دشت میں خوشبو کی بوچھاریں کہاں سے آ گئیں

کیسی شب ہے ایک اک کروٹ پہ کٹ جاتا ہے جسم
میرے بستر میں یہ تلواریں کہاں سے آ گئیں

خواب شاید پھر ہوا آنکھوں میں کوئی سنگسار
زیر مژگاں خون کی دھاریں کہاں سے آ گئیں

شاید اب تک مجھ میں کوئی گھونسلہ آباد ہے
گھر میں یہ چڑیوں کی چہکاریں کہاں سے آ گئیں

ساتھ ہے ملنا اگر چاہوں تو ملتا بھی نہیں
ایک گھر میں اتنی دیواریں کہاں سے آ گئیں

رکھ دیا کس نے مرے شانے پہ اپنا گرم ہاتھ
مجھ شکستہ پا میں رفتاریں کہاں سے آ گئیں