کون سے جذبات لے کر تیرے پاس آیا کروں
تو بتا کس زاویے سے میں تجھے دیکھا کروں
یہ بھی اک شرط سفر ہے ہم سفر کوئی نہ ہو
جس کسی بھی راستے کو طے کروں تنہا کروں
اے گزرتے وقت تو کب میرے بس میں آئے گا
لمحہ پراں بتا کب تک ترا پیچھا کروں
حلقۂ احباب بڑھتا جا رہا ہے دن بدن
اب میں اپنے آپ کو بھی اور کچھ گہرا کروں
کیا ترے ہی قرب کے محتاج تھے سب سلسلے
کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ میں اب کیا کروں
ان گنت بنتی بگڑتی خواہشوں کی زد میں ہوں
دل کہیں ٹھہرا بھی ہو میں دل کا کیا کہنا کروں
میرے ملنے والوں میں سے کون ملتا ہے تجھے
تو کہاں ہے اور کیسا ہے کسے پوچھا کروں
مجھ میں بھی تیری طبیعت کا ذرا سا رنگ ہے
تو نہیں تو کیوں نہ اپنے آپ کو چاہا کروں
میرے شعروں میں تری بے چارگی کا دکھ بھی ہو
کاش جو تو سوچتا ہے وہ بھی میں لکھا کروں
کیا سے کیا ہونے کا دکھ بھی کتنا کرب انگیز ہے
کس توقع پر ریاضؔ اب آئنہ دیکھا کروں
غزل
کون سے جذبات لے کر تیرے پاس آیا کروں
ریاض مجید