کون کہتا ہے تم ادا نہ کرو
پر وفا کی جگہ جفا نہ کرو
سرو کٹ جائیں گے پسے گی حنا
اس طرح باغ میں پھرا نہ کرو
ہنس رہے ہیں ابھی خوشی میں وہ
میرے رونے کا تذکرہ نہ کرو
زخم دل پر نہ ہو نمک پاشی
اس مزے سے تو آشنا نہ کرو
ہے قیامت تمہاری اٹکھیلی
حشر اے جان من بپا نہ کرو
خرمن دل پہ برق گرتی ہے
میرے رونے پہ تم ہنسا نہ کرو
نعمت عشق ہے یہ داغ جگر
شکر حق کے سوا گلا نہ کرو
ہے شب وصل بے تکلف ہو
شوخیاں کہتی ہیں حیا نہ کرو
ہوں گرفتار الفت گیسو
مجھ کو بہر خدا رہا نہ کرو
شوق کہتا ہے خود چلے جاؤ
منت نامہ بر کیا نہ کرو
دل لگانا برا ہے اے عاجزؔ
چپ رہو اس کا تذکرہ نہ کرو
غزل
کون کہتا ہے تم ادا نہ کرو
پیر شیر محمد عاجز