کون کہتا ہے سر عرش بریں رہتا ہے
وہ تو اک درد ہے جو دل کے قریں رہتا ہے
چاند پر اپنے قدم آپ نے کیوں روک لیے
ایک گام اور کہ سورج بھی یہیں رہتا ہے
شمع کی طرح پگھلتا ہوں میں لمحہ لمحہ
میرے احساس میں اک شعلہ جبیں رہتا ہے
دل کے دروازے پہ اب کس کو صدا دیتے ہو
مدتیں گزریں یہاں کوئی نہیں رہتا ہے
وہ جو سورج کو ہتھیلی پہ لیے پھرتا تھا
انہیں تاریک سی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جن فضاؤں میں تمناؤں کا دم گھٹتا ہے
ہاں مرے دور کا فن کار وہیں رہتا ہے
جانے یہ شوق کی ہے کون سی منزل خسروؔ
میں کہیں رہتا ہوں دل میرا کہیں رہتا ہے

غزل
کون کہتا ہے سر عرش بریں رہتا ہے
امیر احمد خسرو