EN हिंदी
کون کہتا ہے نسیم سحری آتی ہے | شیح شیری
kaun kahta hai nasim-e-sahari aati hai

غزل

کون کہتا ہے نسیم سحری آتی ہے

بشیر الدین احمد دہلوی

;

کون کہتا ہے نسیم سحری آتی ہے
نکہت گل میں بسی ایک پری آتی ہے

شوق سے ظلم کرو شوق سے دو تم آزار
یہ سمجھ لو مجھے بھی نوحہ گری آتی ہے

کوئی کہتا ہے کہ آتا ہے دکھانا دل کا
کوئی کہتا ہے تمہیں چارہ گری آتی ہے

درد الفت کو بڑھا کر وہ گھٹا دیتے ہیں
چاک دل کیوں نہ کریں بخیہ گری آتی ہے

جھوٹ سے مجھ کو نہ مطلب نہ بناوٹ سے کام
بات جو آتی ہے منہ پر وہ کھری آتی ہے

زور سے سانس جو لیتا ہوں تو اکثر شب غم
دل کی آواز عجب درد بھری آتی ہے

دست وحشت کا مرے شغل وہ کیا پوچھتے ہیں
کچھ نہیں آتا فقط جامہ دری آتی ہے

کام کرنے کے سلیقے سے ہم آگاہ نہیں
اور کیا آتا ہے بس بے ہنری آتی ہے

دل پژمردہ کھلا جاتا ہے کیوں آج بشیرؔ
آ گئی ہے کوئی یا خوش خبری آتی ہے