کون کہتا ہے کہ وحشت مرے کام آئی ہے
یہ کوئی اور اذیت مرے کام آئی ہے
یوں ہی میں تیرتا پھرتا نہیں صحراؤں میں
ایک دریا کی نصیحت مرے کام آئی ہے
لوگ دیوانہ سمجھتے ہی نہیں تھے مجھ کو
مری بگڑی ہوئی حالت مرے کام آئی ہے
ورنہ جنت سے کہاں مجھ کو نکالا جاتا
جو نہیں کی وہ عبادت مرے کام آئی ہے
آخر کار ترا ہجر میسر آیا
اب کہیں جا کے محبت مرے کام آئی ہے
غزل
کون کہتا ہے کہ وحشت مرے کام آئی ہے
عابد ملک