کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
تیرا در چھوڑ کے میں اور کدھر جاؤں گا
گھر میں گھر جاؤں گا صحرا میں بکھر جاؤں گا
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا
اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
سایۂ ابر کی مانند گزر جاؤں گا
تیرا پیمان وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاؤں گا
چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا
اب تو خورشید کو گزرے ہوئے صدیاں گزریں
اب اسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاؤں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
غزل
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی