EN हिंदी
کون ہے کس نے پکارا ہے صدا کیسے ہوئی | شیح شیری
kaun hai kis ne pukara hai sada kaise hui

غزل

کون ہے کس نے پکارا ہے صدا کیسے ہوئی

سرمد صہبائی

;

کون ہے کس نے پکارا ہے صدا کیسے ہوئی
یہ کرن تاریکئ شب سے رہا کیسے ہوئی

ایک اک پل میں اتر کر سوچتا رہتا ہوں میں
نور کس کا ہے مرے خوں میں ضیا کیسے ہوئی

خواہشیں آئیں کہاں سے کیوں اچھلتا ہے لہو
رت ہری کیونکر ہوئی پاگل ہوا کیسے ہوئی

اس کے جانے کا یقیں تو ہے مگر الجھن میں ہوں
پھول کے ہاتھوں سے یہ خوش بو جدا کیسے ہوئی

وہ مچا ہے غل کہ برہم ہو گئی ہیں صورتیں
کون کس کس سے یہ پوچھے گا خطا کیسے ہوئی

جسم و جاں کا فاصلہ ہے حاصل گرد سفر
جستجوئے زندگی تیرا پتا کیسے ہوئی

ہنس دیا تھا سن کے وہ سرمدؔ بس اتنا یاد ہے
بات اس کے سامنے لیکن ادا کیسے ہوئی