کون ہے کس کا گرفتار نہ سمجھا جائے
یہی بہتر ہے یہ اسرار نہ سمجھا جائے
میں نے کب دنیا میں آنے کی تمنا کی تھی
مجھ کو دنیا کا طلب گار نہ سمجھا جائے
ساری دنیا کو بدلنا کوئی آسان نہیں
کسی دیوانے کو بے کار نہ سمجھا جائے
اس کو باطن سے سروکار ہے ظاہر سے نہیں
دین کو رونق بازار نہ سمجھا جائے
اک یہی بات تو ہے اس میں سمجھنے والی
مجھے کافر اسے دیں دار نہ سمجھا جائے
تیری دنیا میں ترے حسن کا شیدائی ہوں
اے خدا مجھ کو گنہ گار نہ سمجھا جائے
نوع انساں کی بڑائی کا تقاضا ہے یہی
رنگ اور نسل کو معیار نہ سمجھا جائے

غزل
کون ہے کس کا گرفتار نہ سمجھا جائے
جمیل یوسف