کون دیتا رہا صحرا میں صدا میری طرح
آج تنہا ہوں مگر کوئی تو تھا میری طرح
میں تری راہ میں پامال ہوا جاتا ہوں
مٹ نہ جائے ترا نقش کف پا میری طرح
میں ہی تنہا ہوں فقط تیری بھری دنیا میں
اور بھی لوگ ہیں کیا میرے خدا میری طرح
رنگ ارباب رضا پیشہ مبارک ہو تجھے
کوئی ہوتا ہی نہیں تجھ سے خفا میری طرح
کس کو حاصل ہو تری چشم سیہ کے آگے
منصب سلسلۂ جرم و خطا میری طرح
آشنا کون ہے نقش قدم نکہت کا
یاد کس کو ہے ترے گھر کا پتا میری طرح
شاذؔ تارا نہیں ٹوٹا کوئی دل ٹوٹا ہے
راہ تکتا تھا شب غم کوئی کیا میری طرح
غزل
کون دیتا رہا صحرا میں صدا میری طرح
شاذ تمکنت