EN हिंदी
کون بتائے کیا ہے حقیقت اور بنا افسانہ کیا | شیح شیری
kaun batae kya hai haqiqat aur bana afsana kya

غزل

کون بتائے کیا ہے حقیقت اور بنا افسانہ کیا

خلیق صدیقی

;

کون بتائے کیا ہے حقیقت اور بنا افسانہ کیا
دل کی بستی کیا بستی ہے بسنا کیا لٹ جانا کیا

برسوں نے جو رشتے جوڑے پل بھر نے وہ توڑ دیے
پیارے! اب ٹوٹے ٹکڑوں سے اپنا جی بہلانا کیا

آج تو جوں توں کٹ جائے گا کل کی سوچو کیا ہوگا
جو گزری سو گزر چکی اترانا کیا پچھتانا کیا

کیسا طوفاں کیسی بلائیں یارو! یہ بھی سوچو تو
سیکھا ہے مر مر کے جینا جیتے جی مر جانا کیا

جانے کتنے ڈوبنے والے ساحل پر بھی ڈوب گئے
پیارے! طوفانوں میں رہ کر اتنا بھی گھبرانا کیا

تنہا تنہا جی کے دیکھا ساتھ بھی جی کے دیکھ لیا
ہم نے کیا سمجھا ہے جینا اوروں کو سمجھانا کیا

سود و زیاں کی باتیں چھوڑو اور ہی باتیں چھیڑو بھی
عشق کے ہاتھوں کیا کھویا ہے کیا پایا دہرانا کیا

اپنی رام کہانی میں بھی جگ بیتی کا جادو تھا
پلکیں جھپکی جاتی ہیں اب ختم ہوا افسانہ کیا