کون عاجزؔ صلۂ تشنہ دہانی مانگے
یہ جہاں آگ اسے دیتا ہے جو پانی مانگے
دل بھی گردن بھی ہتھیلی پہ لئے پھرتا ہوں
جانے کب کس کا لہو تیری جوانی مانگے
توڑیئے مصلحت وقت کی دیواروں کو
راہ جس وقت طبیعت کی روانی مانگے
مانگنا جرم ہے فن کار سے ترتیب خیال
گیسوئے وقت جب آشفتہ بیانی مانگے
ساقی تو چاہے تو وہ دور بھی آ سکتا ہے
کہ ملے جام شراب اس کو جو پانی مانگے
کس کا سینہ ہے جو زخموں سے نہیں ہے معمور
کیا کوئی تجھ سے محبت کی نشانی مانگے
دل تو دے ہی چکا اب ہے یہ ارادہ اپنا
جان بھی دے دوں جو وہ دشمن جانی مانگے
ہیں مرے شیشۂ صہبائے سخن میں دونوں
نئی مانگے کوئی مجھ سے کہ پرانی مانگے
غزل
کون عاجزؔ صلۂ تشنہ دہانی مانگے
کلیم عاجز