کٹا نہ کوہ الم ہم سے کوہ کن کی طرح
بدل سکا نہ زمانہ ترے چلن کی طرح
ہزار بار کیا خون آرزو ہم نے
جبین دہر پہ پھر بھی رہے شکن کی طرح
سواد شب کی یہ تنہائیاں بھی ڈستی ہیں
یہ چاندنی بھی نظر آتی ہے کفن کی طرح
تمام شہر ہے بیگانہ لوگ نا مانوس
وطن میں اپنے ہیں ہم ایک بے وطن کی طرح
خیال دوست نہ حسرت نہ آرزو نہ امید
یہ دل ہے اب کسی اجڑے ہوئے چمن کی طرح
سکون قلب تو کیا ہے قرار جاں بھی لٹا
تمہاری یاد بھی آئی تو راہزن کی طرح
عجب نہیں کہ سر شہر آرزو نادرؔ
ہمارا دل بھی جلے شمع انجمن کی طرح

غزل
کٹا نہ کوہ الم ہم سے کوہ کن کی طرح
اطہر نادر