EN हिंदी
کٹ نہ پائے یہ فاصلے بھی اگر | شیح شیری
kaT na pae ye fasle bhi agar

غزل

کٹ نہ پائے یہ فاصلے بھی اگر

شکیل جاذب

;

کٹ نہ پائے یہ فاصلے بھی اگر
اور اس پر یہ رابطے بھی اگر

جو تمہاری طرف نہیں کھلتے
بند نکلے وہ راستے بھی اگر

خیر ہو تیری بے نیازی کی
اب نہیں خود پرست تھے بھی اگر

کیا کریں گے سوائے خواہش کے
مہلت یک نفس ملے بھی اگر

عمر بھر کے زیاں کا مول نہیں
چند لمحے چرا لیے بھی اگر

خوں بہا کون دے گا جذبوں کا
بعد مرنے کے جی اٹھے بھی اگر

کون سمجھے گا استعاروں کو
کچھ نہ بولیں گے حاشیے بھی اگر