EN हिंदी
کٹ گئی عمر یہی ایک تمنا کرتے | شیح شیری
kaT gai umr yahi ek tamanna karte

غزل

کٹ گئی عمر یہی ایک تمنا کرتے

طلحہ رضوی برق

;

کٹ گئی عمر یہی ایک تمنا کرتے
سامنے بیٹھ کے ہم آپ کو دیکھا کرتے

اے جنوں دیکھ چلے جاتے ہیں صحرا کی طرف
عقل کہتی تو ابھی بیٹھ کے سوچا کرتے

یاد آ آ کے کوئی زخم لگا جاتا ہے
ورنہ اس کوچہ سے ہم روز ہی گزرا کرتے

سر پہ ہے غم کی کڑی دھوپ کہاں ہیں احباب
کاش دو بول سے ہمدردی کے سایا کرتے

وجہ تسکین دل و راحت جاں کچھ بھی نہیں
زندگی تیرے لیے کس کا بہانا کرتے

وقت سائے کی طرح بھاگ رہا ہے یارو
عمر گزری ہے اسی طرح سے پیچھا کرتے

برقؔ صاحب نے نہ دیکھا تجھے اے برق جمال
شہر میں جا کے ترے حسن کا چرچا کرتے