کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا
جب اس رخ پر نور کا جلوہ نظر آیا
کعبہ نظر آیا نہ کلیسا نظر آیا
یہ حسن یہ شوخی یہ کرشمہ یہ ادائیں
دنیا نظر آئی مجھے تو کیا نظر آیا
اک سرخوشی عشق ہے اک بے خودی شوق
آنکھوں کو خدا جانے مری کیا نظر آیا
جب دیکھ نہ سکتے تھے تو دریا بھی تھا قطرہ
جب آنکھ کھلی قطرہ بھی دریا نظر آیا
قربان تری شان عنایت کے دل و جاں
اس کم نگہی پر مجھے کیا کیا نظر آیا
ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا
ہر نقش ترا نقش کف پا نظر آیا
آنکھوں نے دکھا دی جو ترے غم کی حقیقت
عالم مجھے سارا تہ و بالا نظر آیا
ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منور
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا
غزل
کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جگر مراد آبادی