کشاں کشاں لئے جاتا ہے کوئے یار مجھے
میں کیا کروں نہیں دل پر جو اختیار مجھے
کسی کی مدھ بھری آنکھوں سے کیا ملی آنکھیں
سمجھ رہے ہیں مرے دوست بادہ خوار مجھے
مجھے خبر ہے کہ اب تجھ کو پا نہیں سکتا
تو یاد کیوں تری آتی ہے بار بار مجھے
ترے خیال میں خود کو بھلا دیا اتنا
نہ مل سکے گی کبھی تیری رہ گزار مجھے
اجل سے پوچھ لو آنے میں دیر کیوں کر دی
کہ ناگوار ہے اس وقت انتظار مجھے
نہ آئے تھے تو تمنا تھی کیوں نہیں آئے
وہ آئے چھوڑ گئے کر کے بیقرار مجھے
حزیںؔ تمنا ہے اب مجھ کو جی سے جانے کی
کہ جیتے جی تو کسی کا ملا نہ پیار مجھے

غزل
کشاں کشاں لئے جاتا ہے کوئے یار مجھے
ہنس راج سچدیو حزیںؔ