EN हिंदी
کرتے نہیں جفا بھی وہ ترک وفا کے ساتھ | شیح شیری
karte nahin jafa bhi wo tark-e-wafa ke sath

غزل

کرتے نہیں جفا بھی وہ ترک وفا کے ساتھ

عبدالرحمان خان واصفی بہرائچی

;

کرتے نہیں جفا بھی وہ ترک وفا کے ساتھ
یہ کون سا ستم ہے دل مبتلا کے ساتھ

اب وہ جبین شوق کہیں اور کیوں جھکے
وابستہ ہو گئی جو ترے نقش پا کے ساتھ

وارفتۂ جمال کا عالم نہ پوچھئے
دیوانہ وار اٹھتی ہیں نظریں صدا کے ساتھ

سرخی تمہارے ہاتھ کی کہتی ہے صاف صاف
شامل ہے میرے دل کا لہو بھی حنا کے ساتھ

تکمیل آرزو کی خوشی اور غم حیات
دونوں ہی ابتدا سے رہے انتہا کے ساتھ

شامل مری حیات میں یوں ہے غم حیات
جیسے خبر ہو اپنے کسی مبتدا کے ساتھ

وصفیؔ مری حیات نے منزل کو پا لیا
کچھ دن گزار آیا جو اک پارسا کے ساتھ