EN हिंदी
کرتے ہیں وہی لوگ جہاں تازہ تر آباد | شیح شیری
karte hain wahi log jahan taza-tar aabaad

غزل

کرتے ہیں وہی لوگ جہاں تازہ تر آباد

کوثر جائسی

;

کرتے ہیں وہی لوگ جہاں تازہ تر آباد
ہر دور میں رکھتے ہیں جو سینہ شرر آباد

پر شور گلستاں ہیں نہ اب دشت و در آباد
کیا جانے کہاں ہو گئے اہل نظر آباد

ٹھہراؤ کسی شے کے مقدر میں نہیں ہے
دنیا ہے وہ جادہ جسے کہیے سفر آباد

خوابوں کے صنم خانے سلامت ہیں تو یوں ہی
فتنوں سے رہے گا خم زلف و کمر آباد

ہمسائیگی و ربط کی خوشبو بھی کہیں ہے
کرتی ہیں بہاریں تو نگر پر نگر آباد

نغموں سے جہاں روشنیٔ درد تھی کل تک
سناٹے سے ہے آج وہ شاخ شجر آباد

کوثرؔ ہے سخن تاب مرا شہر تخیل
اس شہر میں ہیں آج بھی آئینہ گر آباد