EN हिंदी
کرتے ہیں اگر مجھ سے وہ پیار تو آ جائیں | شیح شیری
karte hain agar mujhse wo pyar to aa jaen

غزل

کرتے ہیں اگر مجھ سے وہ پیار تو آ جائیں

شفیق خلش

;

کرتے ہیں اگر مجھ سے وہ پیار تو آ جائیں
پھر آ کے چلے جائیں اک بار تو آ جائیں

ہے وقت یہ رخصت کا بخشش کا تلافی کا
سمجھیں نہ جو گر اس کو بے کار تو آ جائیں

اک دید کی خواہش پہ اٹکا ہے یہ دم میرا
کم کرنا ہو میرا کچھ آزار تو آ جائیں

جاں دینے کو راضی ہوں اے پیک اجل لیکن
کچھ دیر تو رک جاؤ سرکار تو آ جائیں

جائیں نہ خلشؔ لے کر ہم سوئے عدم حسرت
مقصود ہو ان کو بھی دیدار تو آ جائیں