کرتے ہیں اگر مجھ سے وہ پیار تو آ جائیں
پھر آ کے چلے جائیں اک بار تو آ جائیں
ہے وقت یہ رخصت کا بخشش کا تلافی کا
سمجھیں نہ جو گر اس کو بے کار تو آ جائیں
اک دید کی خواہش پہ اٹکا ہے یہ دم میرا
کم کرنا ہو میرا کچھ آزار تو آ جائیں
جاں دینے کو راضی ہوں اے پیک اجل لیکن
کچھ دیر تو رک جاؤ سرکار تو آ جائیں
جائیں نہ خلشؔ لے کر ہم سوئے عدم حسرت
مقصود ہو ان کو بھی دیدار تو آ جائیں

غزل
کرتے ہیں اگر مجھ سے وہ پیار تو آ جائیں
شفیق خلش