EN हिंदी
کرتا میں اب کسی سے کوئی التماس کیا | شیح شیری
karta main ab kisi se koi iltimas kya

غزل

کرتا میں اب کسی سے کوئی التماس کیا

اطہر نادر

;

کرتا میں اب کسی سے کوئی التماس کیا
مرنے کا غم نہیں ہے تو جینے کی آس کیا

جب تجھ کو مجھ سے دور ہی رہنا پسند ہے
سائے کی طرح رہتا ہے پھر آس پاس کیا

تجھ سے بچھڑ کے ہم تو یہی سوچتے رہے
یہ گردش حیات نہ آئے گی راس کیا

اب ترک دوستی ہی تقاضا ہے وقت کا
تیرا قیاس گر ہے یہی تو قیاس کیا

مانا کہ تیرا ملنا ہے مشکل بہت مگر
ہر لمحہ ٹوٹ جائے اب ایسی بھی آس کیا

اک عمر ہو گئی ہے یہی سوچتے ہوئے
اپنی کتاب زیست کا ہے اقتباس کیا

نادرؔ کہیں تو سیر کو باہر بھی جائیے
ہر دم کسی کی یاد میں رہنا اداس کیا