EN हिंदी
کرنی نہیں ہے دنیا میں اک دشمنی مجھے | شیح شیری
karni nahin hai duniya mein ek dushmani mujhe

غزل

کرنی نہیں ہے دنیا میں اک دشمنی مجھے

سنجیو آریہ

;

کرنی نہیں ہے دنیا میں اک دشمنی مجھے
کہتے ہیں سارے لوگ کبھی آدمی مجھے

جاتی ہے گر تو جائیں یہ دنیا کی دولتیں
بس رام آئی ہے تو فقط سادگی مجھے

نظریں جھکائے بیٹھے رہے وہ بھی شرم سے
راتوں کو پھر ستاتی رہی ان کہی مجھے

سارے چراغ چھوڑ کے منزل پہ بڑھ چلا
رستہ دکھا رہی ہے ابھی تیرگی مجھے

زندہ بچا تو موت کو جانا قریب سے
کیا کیا ہنر سکھائے میری زندگی مجھے

مرنے چلا تو مے کدہ راستے میں مل گیا
مرنے سے پھر بچاتی رہی مے کشی مجھے

غیروں کو چاہ کر کے بھی اپنا نہیں کیا
اپنوں سے ہی ملی تھی یہ بیگانگی مجھے