کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاج
ہم نے کہا جان کل اس نے کہا ہنس کے آج
زلف نے اس کی دیا کاکل سنبل کو رشک
چشم سیہ نے لیا چشم سے آہو کے باج
اس کی وہ بیمار چشم دیکھ رہا تو جو دل
رہ تو سہی میں تیرا کرتا ہوں کیسا علاج
کام پڑا آن کر چاہ سے جس دن ہمیں
چھٹ گئے اس روز سے اور جو تھے کام کاج
دل تو نہ دیتے ہم آہ لے گئی لیکن نظیرؔ
اس کی جبیں کی حیا اور وہ آنکھوں کی لاج

غزل
کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاج
نظیر اکبرآبادی