EN हिंदी
کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاج | شیح شیری
karne laga dil talab jab wo but-e-KHush-e-mizaj

غزل

کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاج

نظیر اکبرآبادی

;

کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاج
ہم نے کہا جان کل اس نے کہا ہنس کے آج

زلف نے اس کی دیا کاکل سنبل کو رشک
چشم سیہ نے لیا چشم سے آہو کے باج

اس کی وہ بیمار چشم دیکھ رہا تو جو دل
رہ تو سہی میں تیرا کرتا ہوں کیسا علاج

کام پڑا آن کر چاہ سے جس دن ہمیں
چھٹ گئے اس روز سے اور جو تھے کام کاج

دل تو نہ دیتے ہم آہ لے گئی لیکن نظیرؔ
اس کی جبیں کی حیا اور وہ آنکھوں کی لاج