کرنا پڑا تھا جس کے لئے یہ سفر مجھے
وہ موج شوق چھوڑ گئی ریت پر مجھے
آداب بزم کے سوا کچھ اور تو نہ تھا
محفل میں اس نے پان دیے خاص کر مجھے
لوٹا ہوں پھر وہ جسم کی ویرانیاں لئے
حسرت سے دیکھتے ہیں یہ دیوار و در مجھے
بازار کا تو ہوش ہے لیکن نہیں یہ یاد
کل رات کون چھوڑ گیا میرے گھر مجھے
آنکھوں کا نور سینے میں محفوظ کر لیا
اس شہر میں جو ہونا پڑا بے بصر مجھے
اس کے سوا یہ راز بھلا کون جانتا
وہ سب کو گالیوں سے نوازے مگر مجھے
غزل
کرنا پڑا تھا جس کے لئے یہ سفر مجھے
علیم افسر