کرنا ہے کار خیر تو پھر سر نہ دیکھنا
برسیں جو تیری ذات پہ پتھر نہ دیکھنا
لگنے لگیں گے دوست بھی دشمن سبھی تمہیں
یعنی ہے کس کے ہاتھ میں خنجر نہ دیکھنا
رکھنا حقیقتیں بھی نگاہوں کے سامنے
دن رات صرف خواب کا منظر نہ دیکھنا
رہ جائے رنگ و بو سے تعلق ترا اگر
پھولوں کو اپنے ہاتھ سے چھو کر نہ دیکھنا
جانا اگر ہے پار تو ہو کر سوار تم
کشتی کے ساتھ ساتھ سمندر نہ دیکھنا
خود کرنا زندگی سے وفاؤں کا فیصلہ
کیا کہہ رہا ہے تم سے مقدر نہ دیکھنا
مصروف اپنی جنگ میں رہنا سدا مگر
نظریں اٹھا کے تم کبھی اوپر نہ دیکھنا
غزل
کرنا ہے کار خیر تو پھر سر نہ دیکھنا
وشمہ خان وشمہ