کرم میں ہے نہ ستم میں نہ التفات میں ہے
جو بات تیری نگاہوں کی احتیاط میں ہے
کچھ اس طرح سے چلے جا رہے ہیں کانٹوں پر
کہ جیسے ہاتھ ہمارا تمہارے ہاتھ میں ہے
دیئے جلے ہیں سجی جا رہی ہے کل کی دلہن
عجیب حسن غم زندگی کی رات میں ہے
کھڑی ہے سیل حوادث کے درمیاں اب تک
بڑا ثبات مری عمر بے ثبات میں ہے
نہ کوئی دوست کسی کا نہ کوئی دشمن ہے
ہمارا دوست و دشمن ہماری ذات میں ہے

غزل
کرم میں ہے نہ ستم میں نہ التفات میں ہے
مشتاق نقوی