EN हिंदी
کرم کے باب میں اپنوں سے ابتدا کیا کر | شیح شیری
karam ke bab mein apnon se ibtida kiya kar

غزل

کرم کے باب میں اپنوں سے ابتدا کیا کر

مجید اختر

;

کرم کے باب میں اپنوں سے ابتدا کیا کر
ذرا سی بات پہ دل کو نہ یوں برا کیا کر

نماز عشق ہے ٹوٹے دلوں کی دل داری
مرے عزیز نہ اس کو کبھی قضا کیا کر

اجالے کے لئے ہے چشم و دل کا آئینہ
بپا کبھی کسی مظلوم کی عزا کیا کر

بنام مذہب و ملت یہ خوں بہانا کیا
ہری ہری وہ کریں تو خدا خدا کیا کر

بجا سہی یہ حیا اور یہ احتیاط مگر
کبھی کبھی تو محبت میں حوصلہ کیا کر

نظر میں رکھ مرے اظہار کی ضرورت کو
کبھی تو نون کا اعلان بھی روا کیا کر

وہ عیب ڈھکتا ہے تیرے سبھی مجید اخترؔ
سو تو بھی درگزر احباب کی خطا کیا کر