کرم ہو یا ستم سر اپنا خم یوں بھی ہے اور یوں بھی
ترا دیوانہ تو ثابت قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
جفا ہو یا وفا اس کا کرم یوں بھی اور یوں بھی
نوازش روز و شب اور دم بہ دم یوں بھی ہے اور یوں بھی
بھلا دیں یا کریں ہم یاد غم یوں بھی ہے اور یوں بھی
کسی کے ہجر میں خود چشم نم یوں بھی ہے اور یوں بھی
حیات و موت کا مقصد سمجھ میں آ نہیں سکتا
وگرنہ آدمی مجبور غم یوں بھی ہے اور یوں بھی
ملی رونے سے جب فرصت تو آنسو پی لئے ہم نے
محبت کے لئے گویا بھرم یوں بھی ہے اور یوں بھی
بغاوت کوئی کرتا ہے رضا پر ہے کوئی قائل
وہ ہے معبود اس کا تو کرم یوں بھی ہے اور یوں بھی
نگاہ ناز سے وہ دیکھ کر نظریں چراتا ہے
ہمارا دل خضرؔ مشق ستم یوں بھی ہے اور یوں بھی

غزل
کرم ہو یا ستم سر اپنا خم یوں بھی ہے اور یوں بھی
خضر برنی