EN हिंदी
کراہتے ہوئے انسان کی صدا ہم ہیں | شیح شیری
karahte hue insan ki sada hum hain

غزل

کراہتے ہوئے انسان کی صدا ہم ہیں

حبیب جالب

;

کراہتے ہوئے انسان کی صدا ہم ہیں
میں سوچتا ہوں مری جان اور کیا ہم ہیں

جو آج تک نہیں پہنچی خدا کے کانوں تک
سر دیار ستم آہ نارسا ہم ہیں

تباہیوں کو مقدر سمجھ کے ہیں خاموش
ہمارا غم نہ کرو درد لا دوا ہم ہیں

کہاں نگہ سے گزرتے ہیں دکھ بھرے دیہات
حسین شہروں کے ہی غم میں مبتلا ہم ہیں