EN हिंदी
کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا | شیح شیری
kar lete alag hum to dil is shoKH se kab ka

غزل

کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا

نظیر اکبرآبادی

;

کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
گر اور بھی ہوتا کوئی اس طور کی چھب کا

بوسہ کی عوض ہوتے ہیں دشنام سے مسرور
اتنا تو کرم ہم پہ بھی ہے یار کے لب کا

اس کان کے جھمکے کی لٹک دیکھ لی شاید
ہر خوشہ اسی تاک میں رہتا ہے عنب کا

دیکھا جو بڑی دیر تلک اس نے منہ اپنا
لے دست حنا بستہ میں آئینہ حلب کا

جب ہم نے کہا رکھیے اب آئینہ کو یہ تو
حصہ ہے کسی اور بھی دیدار طلب کا

یہ سن کے ادھر اس نے کیا غصے میں منہ سرخ
بھبکا ادھر آئینہ بھی ہمسر ہو غضب کا

تم ربط کے ڈھب جس سے لڑاتے ہو نظیرؔ آہ
وہ دلبر عیار ہے کچھ اور ہی ڈھب کا