کر کے ساگر نے کنارے مسترد
کر دئے اپنے سہارے مسترد
شرمگیں نظروں نے اس کی کر دئے
میری آنکھوں کے اشارے مسترد
آپ کے آنچل میں سج کر جی اٹھے
تھے فلک پر جو ستارے مسترد
اس سے مل کر پھول شبنم چاندنی
ہو گئے سب استعارے مسترد
راہ دکھلا ہی نہ آئیں جو درست
کر دئے جائیں ایسے تارے مسترد
آپ سے مجھ کو ملی ہے داد اب
یعنی پچھلے شعر سارے مسترد

غزل
کر کے ساگر نے کنارے مسترد
شاداب الفت