کر اپنی بات کہ پیارے کسی کی بات سے کیا
لیا ہے کام بتا تو نے اس حیات سے کیا
یہاں تو جو بھی ہے راہی ہے بند گلیوں کا
نکل کے دیکھا ہے کس نے حصار ذات سے کیا
تھی بند بند بہت گفتگوئے یار مگر
کھلے ہیں عقدۂ دل اس کی بات بات سے کیا
وہ چپ لگی ہے کہ ہنستا ہے اور نہ روتا ہے
یہ ہو گیا ہے خدا جانے دل کو رات سے کیا
یہ راز دیر و حرم ہے کسی کو کیا معلوم
کہانیوں کو علاقہ ہے واقعات سے کیا
شکست کا تو کسی کو جہاں گماں بھی نہ تھا
نکل گئے ہیں وہ میداں ہمارے ہات سے کیا
ہیں روز ابر کے مشتاق دید تو لاکھوں
لیا ہے کس نے مگر ابر کے صفات سے کیا
ہر اک تو اپنی غرض لے کے ہم سے ملتا ہے
اٹھائیں فائدہ کس کے تعلقات سے کیا
کوئی تو مقصد شعر و ادب بھی ہوگا عمرؔ
نہ ہوں جو کام کی ایسی نگارشات سے کیا
غزل
کر اپنی بات کہ پیارے کسی کی بات سے کیا
عمر انصاری