کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی
ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے
کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی
بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی
یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی
درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی
چھڑا کے ہاتھ بہت دور بہہ گیا ہے چاند
کسی کے ساتھ سمندر میں ڈوبتا ہے کوئی
یہ آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہے
کہ دشت شب میں بھٹکتی ہوئی صدا ہے کوئی
مکان اور نہیں ہے بدل گیا ہے مکیں
افق وہی ہے مگر چاند دوسرا ہے کوئی
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر
دیار چشم میں کیا آج رت جگا ہے کوئی
غزل
کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
شکیب جلالی