کمروں میں چھپنے کے دن ہیں اور نہ برہنہ راتیں ہیں
اب آپس میں کرنے والی اور بہت سی باتیں ہیں
لذت اور یکتائی کا اک جھونکا آیا بیت گیا
پھر سے اپنے اپنے دکھ ہیں اپنی اپنی ذاتیں ہیں
قربت کی لذت جیسے بارش میں پتھر رکھا ہو
اندر صحرا جیسا موسم اور باہر برساتیں ہیں
موم سا نازک پیکر اس کا ہاتھ لگے اور گھل جائے
میرے جسم میں جلنے والی خواہش کی سوغاتیں ہیں
آج ملے تو یوں لگتا ہے آج کے بعد نہیں ملنا
سانس بھی لینے کی نہیں فرصت اکھڑی اکھڑی باتیں ہیں
آخر کوئی پڑھ ہی لے گا رسوائی کی تحریریں
یہ میرے چہرے کی لکیریں کچھ جیتیں کچھ ماتیں ہیں
اب جن کو تخلیق کے فن کا دعویٰ ہے شہزادؔ بہت
ٹوٹے ہوئے قلم ہیں ان کے سوکھی ہوئی دواتیں ہیں
غزل
کمروں میں چھپنے کے دن ہیں اور نہ برہنہ راتیں ہیں
شہزاد احمد