EN हिंदी
کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے | شیح شیری
kami zara si agar fasle mein aa jae

غزل

کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے

فراغ روہوی

;

کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے
وہ شخص پھر سے مرے رابطے میں آ جائے

اسے کرید رہا ہوں طرح طرح سے کہ وہ
جہت جہت سے مرے جائزے میں آ جائے

کمال جب ہے کہ سنورے وہ اپنے درپن میں
اور اس کا عکس مرے آئینے میں آ جائے

کیا ہے ترک تعلق تو مڑ کے دیکھنا کیا
کہیں نہ فرق ترے فیصلے میں آ جائے

دماغ اہل محبت کا ساتھ دیتا نہیں
اسے کہو کہ وہ دل کے کہے میں آ جائے

وہ میری راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھا ہو
یہ واقعہ بھی کبھی دیکھنے میں آ جائے

وہ ماہتاب زمانہ ہے لوگ کہتے ہیں
تو اس کا نور مرے شب کدے میں آ جائے

بس اک فراغؔ بچا ہے جنوں پسند یہاں
کہو کہ وہ بھی مرے قافلے میں آ جائے