کماں اٹھاؤ کہ ہیں سامنے نشانے بہت
ابھی تو خالی پڑے ہیں لہو کے خانے بہت
وہ دھوپ تھی کہ ہوئی جا رہی تھی جسم کے پار
اگرچہ ہم نے گھنے سائے سر پہ تانے بہت
ابھی کچھ اور کا احساس پھر بھی زندہ ہے
نواح جسم کے اسرار ہم نے جانے بہت
زیادہ کچھ بھی نہیں ایک مشت خاک سے میں
ذرا سی چیز کو پھیلا دیا ہوا نے بہت
لگا ہوا ہوں ادھر وقت کو سمیٹنے میں
پھسل رہے ہیں ادھر ہاتھ سے زمانے بہت
سفر قیام سے بہتر نہیں رہا اب کے
کہ جا بجا تھے مری راہ میں ٹھکانے بہت
بڑی عجیب تھی پچھلی خموش رات حسنؔ
مجھے رلایا کسی دور کی صدا نے بہت
غزل
کماں اٹھاؤ کہ ہیں سامنے نشانے بہت
حسن عزیز