EN हिंदी
کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے | شیح شیری
kamal-e-shauq-e-safar bhi udhar hi jata hai

غزل

کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے

یشب تمنا

;

کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے
کسی سفر کا مسافر ہو گھر ہی جاتا ہے

وہ آدمی ہی تو ہوتا ہے غم کی شدت سے
ہزار کوششیں کر لے بکھر ہی جاتا ہے

وہ ہجر ہو کہ ترے وصل کا کوئی لمحہ
وہ مستقل نہیں ہوتا گزر ہی جاتا ہے

جو اس سے پہلے بھی شیشے میں بال آیا ہو
تو دل کسی نئی الفت سے ڈر ہی جاتا ہے

چڑھا ہوا کوئی دریا ہو یا کہ نشہ ہو
یشبؔ کبھی نہ کبھی تو اتر ہی جاتا ہے