کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے
کسی سفر کا مسافر ہو گھر ہی جاتا ہے
وہ آدمی ہی تو ہوتا ہے غم کی شدت سے
ہزار کوششیں کر لے بکھر ہی جاتا ہے
وہ ہجر ہو کہ ترے وصل کا کوئی لمحہ
وہ مستقل نہیں ہوتا گزر ہی جاتا ہے
جو اس سے پہلے بھی شیشے میں بال آیا ہو
تو دل کسی نئی الفت سے ڈر ہی جاتا ہے
چڑھا ہوا کوئی دریا ہو یا کہ نشہ ہو
یشبؔ کبھی نہ کبھی تو اتر ہی جاتا ہے

غزل
کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے
یشب تمنا