کمال حسن کا جب بھی خیال آیا ہے
مثال شعر ترا نام دل پہ اترا ہے
میں اپنے آپ کو دیکھوں تو کس طرح دیکھوں
کہ میرے گرد مری ذات ہی کا پردہ ہے
میں فلسفی نہ پیمبر کہ راہ بتلاؤں
ہر ایک شخص مجھی سے سوال کرتا ہے
یہ سچ ہے میں بھی تغیر کی زد سے بچ نہ سکا
سوال یہ ہے کہ تو بھی تو کتنا بدلا ہے
ترے خلوص کی چادر سمٹ گئی شاید
مرا وجود مجھے اجنبی سا لگتا ہے
ابھی تو حالت دل کا سدھار ہے مشکل
ابھی تو تیری جدائی کا زخم تازہ ہے
عزیزؔ اپنے تضادات ہی مٹا ڈالو
یہ کون پوچھ رہا ہے زمانہ کیسا ہے
غزل
کمال حسن کا جب بھی خیال آیا ہے
عزیز صابری